حدیث سے۔ مگر ۔۔۔۔۔۔۔
#احادیث-جمع کرنا تو #سب-سے-بڑی-بدعتوں میں سے ایک ہے! میلاد النبیؐ کی خوشی ایک دن، ماہ یا خاص مواقع پہ منائی جاتی ہے، ادھر جیسے ہی کوئی تحریر و تقریر و گفتگو کے دوران حدیث بیان کرتا ہے ، فورا بدعت پہ عمل کرنے کا مرتکب ہو جاتا ہے ! ملاحظہ فرمائے:-
یہ (میلاد نبیؐ ) روح و روحانیت کا معاملہ ہے ! مادے کے ماہر اسے قرآن و حدیث و آثار میں تلاش نہیں کر سکتے۔ یہاں تک کہ انہیں قرآن و حدیث و آثار سے ہی ثابت بھی کیوں نہ کر دیا جائے، تسلیم نہیں کریں گے، جیسے سائنسدانوں پہ کیاجاتا ہے، نہیں مانتے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو پورے عرب کے مرتدوں اور چھوٹے نبیوں نے چین نہیں لینے دیا۔ بعد از سیکڑوں سال سے مستحکم چلی آ رہیں دنیا کی دو سپر پاور شہنشاہیتیں روم اور فارس تمام جنگی ساز و سامان و افواج کے ساتھ دونوں جانب سے نبردآزما ہو گئیں؛ وسائل کی انتہائی کمی کے باوجود ان سے مقابلہ کرنے میں مصروف ہونے نے۔۔۔ان سے قبل 22 سال دشمن اسلام کفار مکہ کی بار بار 700/700 کلومیٹر کا ریگستانی و پہاڑی سفر طے کر کے بارمبار برسائی گئیں قہر سامانیوں۔۔۔نے،کم مائیگی و بے بضاعتی نے۔ خلفائے راشدین رض کے بعد سو برس کے اندر دین محمدی ص کا کیا حشر کیا گیا ! ! ! :- " اب دور رسولؐ کی نماز بھی نہیں رہی ! :حضرت انس بن مالک رض، وصال 93ھ " اب میں عہد نبوی ص کی نماز بھی نہیں پاتا ! : امام مالک رح،وقات،176ھ۔ بخاری کی وحشت-ناک #صحیح روایتوں کے ان الفاظ میں پنہاں معانی و مطالب سے ہر صاحب علم و نظر واقف ہے۔۔۔۔۔۔۔ویسے بھی، انہیں اس کے لئے کسی خاص اہتمام کی بالکل ضرورت نہیں تھی۔۔یہ سب ہمیں بدعت کے ذریعے معلوم ہوا۔۔۔۔
مخالفین بدعت، بدعت پہ جتنے بھی فرامین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیش کرتے ہیں،خواہ اس یا کسی اور موضوع سے متعلق، حضرتِ عمر فاروق رض نے تمام احادیث رسولؐ کے سننے, سنانے, جمع کرنے پہ سخت پابندی عائد کر دی تھی۔اس کا روز روشن کی طرح واضح مطلب ہے کہ اصول مخالفین بدعت کے مطابق ، بعد میں کبھی بھی ، کسی کو بھی احادیث رسولؐ ہرگز جمع۔۔۔۔۔ نہیں کرنی چاہئیں تھیں کہ صحابہؓ نے تو نہ صرف جمع نہیں کی تھیں بلکہ امیر المومنین رض کے حکم کے مطابق سننے, سنانے سے بھی باز رہے تھے،الا استثنیٰ۔ یہ بھی ہمیں بدعتیوں کے صدقے سے معلوم ہوا۔مع صحاح ستہ تمام کتب احادیث میں رقم کردہ کل روایتیں #بدعت پہ عمل کرنے کا ہی نتیجہ ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر مخالفین بدعت کے اصول کی رو سے انہیں کسی ایک بھی حدیث کو سننے, سنانے، جمع کرنے، عبارت و خطاب و کلام میں بیان کرنے سے قطعاً کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہئے۔۔۔
طرہ یہ کہ آپ ص کے پردہ فرمانے کے ڈھائی تین سو 300/250 سال بعد ، بدعت کے ذریعے کشید کر کے قلمبند کی گئیں تمام روایتوں کے بارے میں کامل یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ وہی الفاظ ارشاد گرامی ہیں جو آپ ص کی زبان مبارک سے جاری و ساری ہوئے یا کس میں کتنی کمی بیشی ہوئی، جیسے,متواتر احادیث و تواتر کی بنا پہ قرآن کے بارے میں پورے وثوق سے ! آپ ص سے منسوب احادیث پہ ایقان و اعتماد اس لئے کیا (جو جیسی جتنی جس کے نزدیک معقول ہے) جاتا ہے کہ حضرات مؤلفین (محدثین رح) نے سخت محنت اور اپنے تئیں پوری ایماندارانہ کوشش سے جمع کردہ معیاری روایتیں بیان کیں۔ بعد از محققین نے بھی ان پہ خوب کام کیا اور آج تک جاری ہے۔اس طریقہ کار سے علم جرح و تعدیل وجود میں آیا، جو علم بدعت کا ہی ایک بچہ ہے۔یہ بھی ہمیں بدعت ایجاد کرنے سے ہی معلوم ہوا۔۔۔۔۔
اندازہ لگائے ! ایک ایک محدث کو پانچ پانچ سات سات لاکھ احادیث کے عظیم ذخیرے ازبر،اور لکھیں صرف پانچ پانچ سات سات ہزار ہی!!! ؟؟؟ یہ بھی ہمیں بدعت کے طفیل ہی معلوم ہوا۔۔۔۔۔
اگر پھنس گئے ہیں، عربیت سے پنڈ چھڑائے! عربیت اسلام نہیں ہے۔اسلام عربیت (جاہلیت) کے خلاف اٹھا تھا۔ دین اسلام رب العالمین و خاتم النبیین رحمت اللعالؐمین کے اصولوں اور مقاصد کے مجموعے کا نام ہے۔ ورنہ %99 امکان ہے، ایسے ہی بن جائیں گے کہ ایک فیصد %01 سچے لوگ بھی اعتبار نہیں کریں گے۔ جیسے محدثین رح نے نہیں کیا اور ایک ایک کر کے عمر بھر کی محنت شاقہ سے جمع کردہ %99 روایتیں دماغ کے نہاں خانوں میں ہی دفن کر دیں۔ یاد رہے ! تمام قابل قبول حدیثوں کے سبھی معزز روات عرب ہیں اور ادھر، محدثین نے جن %99 یعنی پانچ 5 لاکھ میں سے چار 4 لاکھ پچیانوے 95 ہزار حدیثوں کو موضوعہ، خود ساختہ، گھڑی گئیں ، جھوٹی اور باطل قرار دے کر دفن کیا، کے تمام روات بھی %200 عرب ہی ہوں گے۔اور یہ سب بھی ہمیں بدعتیوں کے وسیلے سے ہی معلوم ہوا۔۔۔۔۔
احادیث کے روات کی روداد کو بڑا انوکھا کارنامہ بتایا جاتا ہے( ہے بھی) مگر حقیقت نہیں بتائی جاتی کہ اس کارنامے کے منصہ شہود پہ آنے کی وجہ کیا ہے! اشارے کر دیئے گئے، غور کیجئے ! اصول مخالفین بدعت کے تحت ان کے پاس قرآن کے بعینہی الفاظ پہ عمل کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔انہیں چاہئے کہ تراجم قرآن کے انبار، تفاسیر قرآن کے ذخائر، کتب احادیث و تراجم کے خزینے، فقہ کے دفینے، شروحات کے خزائن،علم کلام کا بحر زخار، فلسفہ و تاریخ کے بھنڈار وغیرہ وغیرہ، سب سے دستبردار ہو جائیں۔ صرف ان ہی سے کیوں ! ان مسلمانوں سے بھی اعلانیہ برائت کا اظہار کریں جنہوں نے یہ سارے شاہکار تخلیق کئے اور ان سے بھی جو ان پہ 13/12 سو سال عمل کرتے رہے۔ یہ سب بدعتیوں اور ان کے ایجاد کردہ علوم بدعت کے ذریعے تخلیقی مراحل سے گزر کے وجود میں آئے شاہکار ہیں ؛ انہیں ہر دور کے بدعتیوں نے اگلے دور کے بدعتیوں کو بحفاظت منتقل کیا، یہاں تک کہ موجودہ بدعتی مسلمانوں کو پہنچایا۔ پس، انہیں ہرگز بدعتیوں کے شاہکاروں اور علوم بدعت سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے۔ بقول مخالفین بدعت اور ان کے اپنے اصول کے تحت بی وہ علوم بدعت سے مستفیض ہو کر گمراہی کے راستے پہ چل رہے ہیں جو شرک تک پہنچاتا ہے۔ان کے اسی اصول کے تحت ان پر علم بدعت و اس کے بطن سے بیدا کی گئی ہر چیز کو یک لخت ٹھوکر مارنا واجب ہے۔ اپنے اس اصول پہ عمل کر کے وہ أمیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حکم کی روز نا-فرمانی کرنے سے ہی نہیں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متضاد عمل کرنے سے بھی محفوظ رہیں گے اور ان کی مکمل طور پہ اتباع کرنے کا فریضہ بھی ادا کریں گے۔ بدعت سے پوری طرح پاک صاف ہو کر شرک کی طرف بڑھ رہے قدموں کو بھی روک لیں گے اور اس کی تمام غلاظتوں سے مصفا و منزہ ہو کر دودھ کے نہیں، نور کے دھلے ہو جائیں گے۔ قوی امید ہے، آج سے ہی، مخالفین بدعت عربی قرآن کے علاوہ تمام پڑھی، سنی حدیثیں اور علوم کسی دوسرے کو پڑھائیں گے نہ پڑھیں گے، سنائیں گے نہ سنیں گے، عرض کریں گے نہ حضور میں پیش کریں گے اور نہ ہی کسی بھی طرح، کبھی بھی، کہیں بھی ثبت کریں گے۔ یہی ان کے ایمان و اعتقاد و اصول کا تقاضا ہے۔ ہاں، خود ان پہ عمل ضرور کر لیں، لیکن آ گے کسی بھی وسیلے سے دوسروں کو نہیں پہنچانی چاہئیں۔
مخالفین بدعت کو یہ بھی خوب اچھی طرح سمجھ اور یاد رکھ لینا چاہئے کہ ان کے و ان کے بڑوں کی مانند کم مایہ عقل و علم، فہم و فراست،ادراک و وجدان، شعور و تفکر، متعصبانہ ذہنیت اور ڈیڑھ دو سو سال سے ہی قرآن و حدیث کا مطالعہ نہیں کیا گیا بلکہ اس کے بر عکس 1457 برس سے سیکڑوں جلیل القدر، وسیع الذہن، کہنہ مشق، ہمہ جہتی علوم کے غواص، سیرت و سنت رسول ص کے پابند بدعتی علماء اور بزرگان دین، رب العالمین و رحمت اللعالؐمین کے مقاصد و منشاء-اسلام برائے انسان، حال،ماضی مستقبل ، قوموں کی نفسیات و ضروریات ، دنیا و آخرت کے حالات و واقعات کی روشنی میں قرآن کے ایک ایک نقطے، حرف و لفظ پہ متعدد پہلوؤں سے غور و فکر کرتے رہے،آج بھی کرتے ہیں،آئندہ بھی کرتے رہیں گے اور اسی طریق پہ ہر حدیث کے ہر ہر نقطے، حرف، لفظ، کے معانی و مطالب اور محل استعمال پہ بھی۔ -المہر خاں
Read in Hindi :-
Twitter link:-(( Al-Miher Khan ))
( https://twitter.com/miher_al?t=_6raqMEJLUyTzu0KHcCC5Q&s=07 )
YouTube Ch. link :-(( Al-Miher Khan ))
( https://youtube.com/@al-miherkhan5200 )
In Community feature
Fb wall link :-(( Al-Miher Khan ))
( https://www.facebook.com/almiher.khan
Fb page link :-(( the Danka ))
( https://www.facebook.com/profile.php?id=100065451491487&mibextid=ZbWKwL )
Fb page link :-(( Danka news )) (https://www.facebook.com/profile.php?id=100087052285886&mibextid=ZbWKwL
.
Baab-e-ilm Blog :- (https://baabeilm.blogspot.com/?m=1)
Al-Miher Khan Blog:-
( https://almiherkkhan.blogspot.com/?m=1 )
۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں