ہفتہ، 29 اکتوبر، 2022

اب میں عہد نبوی ص کی نماز بھی نہیں پاتا:امام مالک رح

پہلی اشاعت 3 نومبر 
آپ رح کا وصال 795 عیسوی میں ہوا۔اموی ملوکیت 661 سے شروع ہو کر 744 عیسوی میں ختم ہوئی۔اموی ملوکیت کل 83 سال رہی۔آپ رح کی عمر 84 سال تھی۔آپ رح نے 33 سال اموی ملوکیت میں اور باقی اس کے پھیلائے گئے دین و دنیا سے متعلق عقائد و نظریات اور اعمال و اقوال کے درمیاں گزارے۔ مندرجہ بالا قول اموی دارالحکومت (رہے) دمشق میں ارشاد فرمایا۔

بدعت پہ احادیث،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور طرح طرح کی دلیلیں دینے والوں سے گزارش ہے،امام مالک رح کے سرخی میں مستعمل نو 9 الفاظ پہ غور و فکر اور تحقیق کریں ! اسلام کے سب سے اہم رکن کی یہ حالت کس نے؟ کیوں کی؟ اس دور میں اسلام و مسلمانوں کی حالت بالمقابل دور نبوی و خلفاء راشدین کیسی اور کیوں ہو گئی تھی۔

( میں دمشق میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا۔ آپ اس وقت رو رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کی کوئی چیز اس نماز کے علاوہ اب میں نہیں پاتا اور اب اس کو بھی ضائع کر دیا گیا ہے۔ اور بکر بن خلف نے کہا کہ ہم سے محمد بن بکر برسانی نے بیان کیا کہ ہم سے عثمان بن ابی رواد نے یہی حدیث بیان کی۔ 
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ وَاصِلٍ أَبُو عُبَيْدَةَ الْحَدَّادُ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي رَوَّادٍ أَخِي عَبْدِ الْعَزِيزِ ، قَالَ : سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ ، يَقُولُ :    دَخَلْتُ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ بِدِمَشْقَ وَهُوَ يَبْكِي ، فَقُلْتُ : مَا يُبْكِيكَ ؟ ، فَقَالَ : لَا أَعْرِفُ شَيْئًا مِمَّا أَدْرَكْتُ إِلَّا هَذِهِ الصَّلَاةَ ، وَهَذِهِ الصَّلَاةُ قَدْ ضُيِّعَتْ    ، وَقَالَ بَكْرُ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ ، أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي رَوَّادٍ نَحْوَهُ۔_بخاری،530)-المہر خاں

"اے موت! میری زندگی کا انتہائی کمال آ

"اے موت! میری زندگی کا انتہائی کمال آ !
اور میرے ساتھ سرگوشیاں کر
میں ہر وقت تیرا انتظار کرتا ہوں۔
تیرے لئے میں زندگی کی خوشیوں 
اور سخت غموں کو برداشت کرتا ہوں!
خلوت کی گہرائیوں میں
جو کچھ ہوں یا رکھتا ہوں
جس کی آرزو ہے،اور جس سے محبت ہے۔
سب کے سب تیری ہی طرف مائل ہیں۔
 تیری آخری نگاہ کا منتظر ہوں
پھر میری زندگی ہمیشہ کے لئے تیری  ہو جائے گی۔
پھول پرو دیئے گئے ہیں،دولہے کے لئے ہار تیار ہے۔
شادی کے بعد دلہن اپنا عارضی گھر چھوڑ کر
رات کی تنہائی میں، صرف اپنے
پیا سے سدا کے لئے ملے گی۔‘‘
-گیتانجلی

"ए मौत ! मेरी ज़िंदगी का इंतहाई कमाल आ !
और मेरे साथ सर्गोशियां कर
मैं हर वक्त तेरा इंतज़ार करता हूं।
तेरे ही लिए मैं ज़िंदगी की खुशियों
और सख़्त ग़मों को बरदाश्त करता हूं!
ख़िल्वत की गहराई में,जो कुछ हूं
या रखता हूं,जिस की आर्ज़ू है
और जिस से प्यार है
सब के सब तेरी ही तरफ़ मा-इल हैं।
तेरी आख़िरी निगाह का मुंतज़िर हूं,
फिर मेरी ज़िंदगी हमेशा के लिए तेरी हो जाएगी।
फूल पिरो दिए गए हैं,दूल्हे के लिए हार तय्यार है।
शादी के बाद दुल्हन अपना आर्ज़ी घर छोड़ कर
रात की तन्हाई में,सिर्फ़ अपने
पिया से सदा के लिए मिलेगी।"
-गीतांजलि

قرآن و حدیث ،قرآن و حدیث کی گردان اور حقیقت !

پہلی اشاعت 30 اکتوبر
آج کل قرآن و حدیث پہ عمل کرنے پر بڑا زور دیا جا رہا ہے۔جدھر دیکھو یہی صدا سنائی دیتی ہے کہ قرآن پہ عمل کرو اور احادیث پہ۔ ان میں جو واقعی کسی قابل ہیں،ان کی بات سمجھ میں آتی ہے کہ آخر وہ اس بات پہ اتنا زور کیوں دے رہے ہیں؟ در اصل ان کی کردان کا واحد مقصد آپ ص کے نبوت و رسالت کا اعلان فرمانے کے دن سے آج تک کی تاریخ سے مسلمانوں کا دھیان ہٹانا ہے، تاکہ بنو امیہ کے کارناموں کو چھپا لیا جائے۔ احادیث میں وارد کوئی کارنامہ سامنے آ ہی جائے تو اس کی آسانی سے ایسی تاویل و تشریح کر دی جائے کہ لوگ تاریخ سے نابلد ہونے اور بے وقعت ماننے کی بنا پر برضا و رغبت ہضم کر لیں۔ جو باز نہ آئیں اور پڑھ ہی لیں ان کی تعداد اتنی نہ ہوگی کہ معاشرے پہ اثرانداز ہو سکیں۔ پھر یہ بھی کہ تاریخ کو بھی مخدوش،احادیث کو توڑ مروڑ اور قرآن کی آیتوں کو کہیں سے کہیں منطبق کر رہے ہیں۔ لیکن ان کی بات سمجھ میں نہیں آتی جنہیں اپنی مادری زبان بھی ٹھیک سے نہیں آتی اور کہتے رہتے ہیں کلام اللہ و کلام رسول اللہ ص  پہ عمل کرنا ہی سنت اور اسلام پہ عمل کرنا ہے۔ورنہ بدعت ہی بدعت ہے اور بدعت شرک کا راستہ ہے۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

راقم کو عربی نہیں آتی۔ جن کو آتی تھی اور خوب آتی تھی،وہی آتی تھی جس میں خدا نے کلام فرمایا،اہل زبان تھے۔ کہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ان ہی کے زبان و بیان،اسرار و رموز ،لہجے،طرز تخاطب،محاوروں اور امثال میں ا پنے محبوب ص کے ذریعے‌ خطاب فرمایا۔                    

خدا نے کتاب سے پہلے ان میں ان میں سے ہی ان کو علم و حکمت (prectically) سکھانے کے لئے نبی و رسول(ص) مبعوث فرمایا۔اسے(ص) تربیت کے مراحل سے گزارا۔ اس (ص) پر حالات کے مطابق ہر ضرورت کے وقت آیتیں نازل کر کے 23 سال میں قرآن مکمل کیا۔

آپ ص کے بعد کسی طرح ایک ڈیڑھ سال گزرآ؛ شدید ضرورت پیش آئی کہ قرآن جمع کر کے لکھوا دیا جائے۔ قلمبند ہوا تو بارہ چودہ سال بعد پھر مشکل پیش آئی‌۔ اب اس کی قرائتیں بھی معین کرنی پڑیں مگر ایک چیز منسلک، جسے حاشئے میں درج کیا جا سکتا تھا،نہیں کی گئی۔ بلکہ لانے والے کو کہا گیا ' اسے لے جاؤ ! ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔' چیز تھی آیتوں کے شان نزول کی کتاب۔ بھیجی تھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے حضرات عثمان غنی رض کے پاس فرزند ارجمند حضرت محمد بن حنفیہ رح کے ہاتھ اور ہر نزول آیت کے موقع پہ بڑے اہتمام سے 23 سال کے طویل عرصے میں قلمبند کی گئی تھی۔

مصیبت پہلے ہی سر ابھار چکی تھی، اب ہمیشہ کے لئے گلے پڑ گئی۔حالانکہ بہت بعد میں سخت جاں فشانی سے چھان بین کی گئی مگر مرض پوری طرح لا علاج ہو چکا تھا۔ سو آج تک دانستہ یا نادانستہ قرآن کی آیتوں کو کہیں سے کہیں فٹ کیا جاتا ہے۔ایک کا حق دبا کے دوسرے کو دیا جاتا ہے۔اسے تحریف قرآن نہ بھی کہیں، ہیر پھیر کہنا، یقینا درست ہے۔ مثلأ، سورہ الحدید،آیت10،کو بعض علماء نے مؤلفۃ القلوب طلقاء سے منسوب کر دیا حالانکہ اس کے الفاظ و معانی کا صحیح ترین انطباق، شان نزول اور موقع و محل احادیث کے مطابق بھی صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکے سے قبل برضا و رغبت مسلمان ہوئے اصحاب رسول (ص) پہ ہی ہوتا ہے۔مثلا، حضرت خالد بن ولید اور حضرت عمرو بن العاص رض وغیرہ وغیرہ وغیرہ،جو صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکے سے قبل از خود مکے سے مدینے جاکر مسلمان ہوئے تھے اور پچیس پچاس ہزار دیگر۔ سب سے اہم یہ کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ الفتح میں صلح حدیبیہ کو ہی " فتح مبین"  قرار دیا ہے اور فتح مکہ اسی کا زائدہ ہے جیسے فتح خیبر۔

گاڑی سو ڈیڑھ سو سال روز بروز زائد از زوال پزیری کے ساتھ گھسٹ گھسٹ کے جیسے تیسے چلتی رہی مگر بہت بری حالت کر دی گئی تھی۔ یہ جو کوئی ناف کے نیچے ہاتھ باندھتا ہے،کوئی ناف کے اپر ،کوئی سینے پہ اور کوئی ہاتھ چھوڑ کے نماز پڑھتا ہے،اسی دور میں دانستہ مخدوش کرنے کی کوششوں کے تحت کئے گئے تنزل دین مبین کی نشانیاں ہیں۔ دور  بنو امیہ کیسے  گزرا  ہر صاحب علم و نظر جانتا ہے۔اس دور میں لکھنے لکھانے کا کچھ دینی کام ہوا مگر منظر عام پہ بعد میں ہی آ سکا۔ آہستہ آہستہ عوام الناس کے ساتھ علماء حق کو  بھی جنبش زبان و قلم کی آزادی نصیب ہوئی۔پہلے پہل اکا دکا کتابچے  جاری کئے گئے۔ بڑھتی ہوئی نعمت آزادی کے طفیل جزبہ خدمت دین پروان چڑھا اور فقہ جعفریہ ،فقہ حنفیہ،فقہ مالکیہ اور موطی امام مالک جیسی کتابیں منصہ شہود پہ آنی شروع ہوئیں۔ بعد از نصف تیسری صدی ہجری  بخاری،مسلم،نسائی،ابو داؤد، تفاسیر،شمائل، تاریخ وغیرہ وغیرہ۔ان سے استفادہ باکمال اہل علم ہی کرتے تھے۔

کتب احادیث کا جمع ہوا ذخیرہ،کم و بیش ڈیڑھ سو سال سے ہی منظر عام پہ آیا ہے،خصوصا بر صغیر میں۔ اس سے قبل عوام تو عوام بہت سے ملا جی اور مسجدوں کے امام بھی ان کے ناموں سے واقف نہ ہوتے تھے۔ مگر مسلمان ہزار سال سے اسلام پہ عمل کرتے آ رہے تھے۔ پوری آن بان شان سے اور نہ صرف عمل کرتے آ رہے تھے بلکہ متواتر پھیلتے پھیلاتے بھی جا رہے تھے۔ آپس میں دشمنی و عناد ہونا دور کی بات،اعراض و کراہت کی حرکت بھی شاز و نادر ہی ہوتی تھی۔سب گھل مل کے رہتے تھے نہ صرف آپس میں بلکہ غیر مسلموں سے بھی حتی الامکان۔ اب ! جب سے عوام کے درمیان احادیث کا پٹارا کھولنے والے مولوی پیدا ہوئے، آپس میں ہی نبردآزما ہیں۔ سب سے پہلے دیوبندی فرقہ گھڑا گیا ،پھر اہل حدیث،بعد از ندوی،بریلوی،جماعتی،جماعت اسلامی،اب غامدی اور آئندہ جہلمی وغیرہ بھی رونق افروز ہونے ہیں۔

مسئلے کاحل صرف قرآن و حدیث پہ عمل کرنا نہیں ہے۔ یہ تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی نہ ہو سکا، جو وہ زبان بھی خوب اچھی طرح جانتے تھے، جس میں قرآن نازل ہوا، آپ ص کی مصابحت میں 14-15 سال تربیت بھی حاصل کی تھی، فرامین و سنت رسول ص بھی اپنے کانوں سنے آنکھوں دیکھے وافر تعداد میں جانتے تھے اور انہیں ناز و گمان بھی تھا کہ " ہمارے لئے قرآن کافی" ہوگا یعنی ہمیں آپ (ص) کے بعد قرآن و ہمارے درمیان آپ (ص) کی وصیت کی حاجت ہو گی نہ وصی (بابا) کی؛ لیکن ایسا ہرگز ہو سکتا تھا نہ ہوا اور آپ رض کو کہنا پڑا " ابو الحسن(حضرت علی کرم۔۔۔) ہیں تو مصیبت نہیں ! " واضح طور پہ جانا جا سکتا ہے کہ جو اہل زبان ہو،جسے 14-15 سال تربیت رسول ص بھی حاصل ہوئی ہو،جس کے قول کے مطابق  کئی آیت نازل ہوئی ہوں ،اسے بھی مصیبت کے وقت مشکل کشا و رہنما کی اشد ضرورت پیش آتی تھی، کسی اور کی اوقات ہی کیا ہے! ممکن ہے تمام باتوں کو رد کردیں۔ مگر اس سے پہلے مندرجہ ذیل قرآنی الفاظ اور ان کے ترجموں پہ اچھی طرح غور کرلیں کہ خدا کی منشا کے مواقف کون سا ترجمہ (ہو سکتا) ہے؟ : -

"۔۔۔۔ و ما انا من المشرکین۔" سورہ یوسف،جزو آیت 108.

1۔۔۔۔اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔

2۔۔۔۔اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔

3۔۔۔۔اور میں شرک کرنے والا نہیں۔

4۔۔۔۔اور میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو     
       اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں۔

5۔۔۔۔اور میں مشرکوں میں نہیں۔

اسلام 360 میں 16 ترجمے دستیاب ہیں، امید ہے آسانی سے فیصلہ کرنے کے لئے پانچ مناسب ہوں گے۔....؟     -المہر خاں       

بابری مسجد مقدمہ،وکلاء اور مسلم پرسنل لا بورڈ ۔۔۔

First published-25 July-2021

 پرسوں تک بابری مسجد ملکیت مقدمے کے سینئیر وکیل راجیو دھون و دیگر مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیت علمائے ہند کے وکیل کی حیثیت سے عدالت میں جرح کر رہے تھے۔کل،پیر 14 اکتوبر کو ایسا کیا ہوا کہ وہی وکلاء اب"سنی وقف بورڈ " کے وکیل قرار دے دئیے گئے؟؟؟ان دونوں تنظیموں کے نام نامی اسم گرامی آج کے اختیارات سے غائب کیوں ہوگئے؟؟؟اگر امت کو اس قدر عظیم تنظیموں کے کرتا دھرتا بھی دھوکا دیتے رہے ہیں،اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی مسلمانوں کو نام نہاد دھوکے باز مکار و ایار مسلمانوں نے فنا کر دیا ہے یا لاچار و مجبور کر کے منظر عام سے ہٹا دیا ہے۔-المہر خاں 

بڑے چرچے ہیں ! کیسے معلوم فلاں کام بدعت ہے ؟ हिंदी भी

            حدیث   سے ۔      مگر  ۔۔۔۔۔۔۔.                    #احادیث-جمع کرنا تو #سب-سے-بڑی-بدعتوں میں سے ایک ہے ! میلاد النبیؐ کی خوشی ای...